Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


”سگنل کھلتے ہی اعوان نے کار دوڑا دی تھی اور ماہ رخ نے جھک کر سائیڈ مرر میں دیکھا تھا۔ گلفام کی سائیکل بڑی گاڑیوں کے ہجوم میں گھر کر پیچھے رہ گئی تھی مگر اس کے چہرے پر حیران و پریشان بے یقینی کی کیفیت اتنی شدید تھی کہ کوئی بعید نہ تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اس کو چھونے سے بھی دریغ نہ کرتا اگر سگنل آف رہتا تو وہ یک ٹک اس کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی سراسیمہ کیفیت اور حیرانی بھری نظریں اس کے ذہن میں چپک گئی تھیں۔

”تم ٹھیک تو ہو ماہ رخ!“ اعوان نے اس کو خاموش اور پریشان دیکھ کر پوچھا اور ساتھ ہی ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھایا تھا  کہ وہ پسینے پسینے ہو رہی تھی۔

”جی  میں ٹھیک ہوں۔“ بڑی مشکل سے وہ لبوں پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوئی تھی اور پسینہ خشک کرنے لگی تھی۔
(جاری ہے)

”طبیعت تو ٹھیک ہے ناں تمہاری… یہ ایک دم سے کیا ہوا ہے؟“ اعوان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فکر مندی سے کہا تھا کہ وہ خاصی دیر سے اس کی کیفیت نوٹ کر رہا تھا۔
وہ اس سے بات کر رہا تھا مگر اس نے سنا ہی نہیں تھا ایک عجیب سی بے چینی و اضطراب اس کے وجود میں پیدا ہو گیا تھا۔

”دراصل  مجھے یاد آیا ہے ابھی گھر پر ڈیڈی کے مہمان آئیں گے  میرا جلد گھر پہنچنا ضروری ہے  مما بھی گھر پر نہیں ہیں  اگر میں بھی گھر پر موجود نہ ہوئی تو ڈیڈی کو غصہ آئے گا  آپ مجھے ڈراپ کر دیں۔“ اس کے دل میں بے چینی پھیل گئی تھی  وہ جانتی تھی گلفام سیدھا گھر جائے گا اور اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو ہو سکتا ہے وہ حقیقت جان جائے اور ایسا ہوا تو پھر کچھ نہیں بچے گا  خواب  خواہش اور آرزوئیں سب موتیوں کی طرح بکھر جائیں گے اور وہ سب گوارا کر سکتی تھی مگر خوابوں کا سودا ہرگز نہیں۔

”اتنی جلدی…؟ ابھی تو تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔“ اس کی سوچوں سے بے خبر وہ کہہ رہا تھا۔

”آج نہیں! مجھے جلدی گھر جانا ہے  اگلی ملاقات میں دل بھر کر باتیں کرنا۔“ ماہ رخ نے اس کو تسلی کا لالی پوپ پکڑایا تھا۔

”اوکے  تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں کہ میں اپنے دل پر ظلم کر سکتا ہوں مگر اپنی محبت کو پریشان نہیں دیکھ سکتا۔
“ ہر بار کی طرح وہ اس کا مان رکھ گیا تھا۔

”آج تو میں تمہیں یہاں نہیں چھوڑوں گا  تمہارے گھر کے آگے ہی ڈراپ کروں گا۔“ وہ اپنی مخصوص جگہ پر اترنے لگی تو وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گویا ہوا تھا۔ ”روز تم اسی جگہ پر اترتی ہو  یہ جگہ مجھے عجیب سی لگتی ہے  تمہارے شایان شان ہرگز یہ جگہ نہیں ہے رخ۔“ اعوان نے ناپسندیدہ نظروں سے اردگرد نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہا تھا۔

یہ کچی آبادی تھی ٹوٹے پھوٹے گھر  جھونپڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ٹین کی چھتوں والی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں اور سامنے ہی بھینسوں کا باڑہ تھا  جہاں بھینسیں بندھی جگالی کرتی رہتی تھیں اور اس حصے سے ایک تعفن اٹھتا تھا جو یہاں کی فضا میں رچ بس گیا تھا اور اعوان کو اس جگہ پر سانس لینا بھی ناگوارا گزرتا تھا۔

”تم روز یہاں کیوں اترتی ہو  اس جگہ سے تمہارا کیا تعلق ہے؟“ وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے سوال پر سوال کر رہا تھا اور وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی بڑی مخمور نگاہوں سے… اعوان کے ہاتھ کی حدت اس کے رگ و پے میں دوڑنے لگی تھی اور یہ خواہش شدت سے اس کے دل میں ہلچل مچانے لگی کہ کاش! وہ اسی طرح محبت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا رہے اور زندگی تمام ہو جائے۔

”ارے! تم میری کسی بات کا جواب ہی نہیں دے رہی ہو  شاید اپنے ڈیڈ سے بہت زیادہ ڈرتی ہو تم اور میں تمہارا وقت ضائع کر رہا ہوں۔“ اس کی دھڑکنوں سے بے خبر اس نے جلدی سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ بھی گویا ہوش میں آ گئی تھی  فوراً بات بناتے ہوئے گویا ہوئی۔

”ڈیڈی! بے حد اصول پرست ہیں ان کی پوری زندگی اصولوں کی پاسداری میں ہی گزری ہے  اس کے علاوہ وہ ٹائم کے بے حد پابند ہیں اور ہم سے بھی وہ یہی توقع رکھتے ہیں۔

”اوہ! ہی از اے گریٹ مین! میں بہت جلد ان سے ملنا چاہوں گا۔“ اس نے احترام بھرے لہجے میں کہا اور ماہ رخ کو چھوڑ کر چلا گیا۔

حسب عادت ماہ رخ دور تک جاتی اس کار کو وہاں کھڑی دیکھتی رہی تھی کہ یہ اس کا معمول تھا جب تک کار نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جاتی اس وقت تک وہ کھڑی دیکھتی رہتی تھی اور یہ محبت کا تقاضا ہرگز نہ تھا  یہ اس کا خوف تھا  اس کی احتیاط تھی۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی اصلیت سے وہ واقف ہو  اسے ڈر رہتا تھا کہ وہ کہیں چپکے سے آکر اس کا پیچھا نہ کرے اور چوراہے پر اس کا بھانڈا پھوٹ جائے۔ کار نگاہوں سے اوجھل ہونے کے بعد وہ تیز تیز چلنے لگی تھی تاکہ گلفام کے گھر پہنچنے سے پہلے خود گھر پہنچ جائے۔

###

”پری! تمہاری نانو تم سے ملنا چاہتی ہیں  ان کا ڈرائیور دو مرتبہ آ چکا ہے پھر کل آنے کا کہہ کر گیا ہے تم تیاری کر لو کل چلی جانا۔
“ وہ تیل لگانے کے بعد دادی جان کی چٹیا باندھ رہی تھی جب انہوں نے اطلاع دی۔ ”تمہیں ان کے پاس گئے ہوئے بھی کافی عرصہ ہو چکا ہے اور ہو سکتا ہے تمہاری ماں بھی وہاں پر آئی ہوئی ہو۔“ دادی جان کا موڈ خاصا اچھا تھا جو اس کو نہ صرف جانے کی اجازت دے رہی تھیں بلکہ اصرار بھی کر رہی تھیں۔ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتی کہ دادی جان اس کی ماں کا نام اچھے انداز میں لے رہی تھیں مگر اس وقت وہ وعدے کی زنجیر میں جکڑی ہوئی تھی اور یہ صرف وعدہ ہی نہ تھا بلکہ اس گھر کی بقاء اور عزت کی بات تھی۔
وہ خاموشی سے عائزہ کی نگرانی کر رہی تھی اور اسی دوران اس کو محسوس ہوا عائزہ کے ارادے بالکل بھی نیک نہیں ہیں  وہ پر کٹے پرندے کی مانند پورے گھر میں مضطرب پھرتی نظر آتی۔

”ارے پری! کیا گونگے کا گڑ کھا کر بیٹھی ہو  جو کسی بات کا جواب ہی تمہارے منہ سے نہیں نکل رہا ہے؟“ دادی حیرت سے گویا ہوئی تھیں۔

”اوہ دادی جان! میں کچھ عرصے بعد نانو کے ہاں جاؤں گی ابھی نہیں۔
“ بالآخر اسے جواب دینا ہی پڑا۔

”ہیں! یہ کایا پلٹ کیونکر ہوئی… کل تک تو کوئی مذاق میں بھی کہہ دے تو تم یک دم ہی نانو کے ہاں جانے کو تیار ہو جاتی تھیں اور آج خود ہی وہاں جانے سے منع کر رہی ہو؟“ ان کو سخت اچنبھا ہوا۔

”دادی جان! آپ کی ٹانگوں میں اتنا درد ہے ہاتھوں میں بھی  اب ایسی حالت میں آپ کو چھوڑ کر جانے کو میرا دل نہیں چاہ رہا۔
یہ دوسری بات ہے کہ آپ دو تین ماہ سے میری صورت دیکھ دیکھ کر اکتا گئی ہیں تو کہہ دیں  میں کچھ دنوں کیلئے آپ کی نظروں سے دفع ہو جاؤں گی… چلی جاتی ہوں میں۔“ وہ شرارت سے گویا ہوئی تھی اور اماں کی تیوری چڑھ گئی تھی۔

”ارے واہ! یہ تو وہی بات ہوئی کہ آبیل مجھے مار! میں ایسا کیوں چاہوں گی کہ تم مجھ سے دور رہو؟ میرا اختیار اگر چل جائے تو میں تم کو کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دوں مگر بیٹا! ان کا بھی حق ہے تم پر اور میں کسی کا حق نہیں مارنا چاہتی۔

”السلام علیکم دادو!“ طغرل نے اندر آتے ہوئے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام بیٹا! تم آج کل کہاں رہنے لگے ہو؟“ انہوں نے اسے اپنے قریب جگہ دیتے ہوئے لاڈ بھرے لہجے میں پوچھا۔

”یہیں ہوتا ہوں دادو! بلکہ آج کل آپ مجھے لفٹ نہیں کرا رہی ہیں۔ جب بھی دیکھتا ہوں آپ پری سے راز و نیاز میں مصروف رہتی ہیں۔“ وہ دادی کے دوسری طرف بیٹھی پری کو دیکھ کر گویا ہوا تھا اس کی بات پر دادی بے ساختہ ہنس پڑیں اور پری نے اس کے انداز میں پھر پہلے والی شوخی و شرارت محسوس کرکے گہرا سانس لیا تھا۔

”یہ کیا بات کی تو نے طغرل! بات کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔“

”سوچتے وہ ہیں جن میں عقل ہوتی ہے یا کسی کی عزت کا پاس ہوتا ہے۔“ پری نے جل کر سوچا تھا۔

”سچ ہی تو کہہ رہا ہوں دادی جان! آپ مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔“

”ارے یہ سب تمہارا وہم ہے  تم کیوں خیال کرتے ہو بلاوجہ ہی…؟“

”پھر آپ ایک بات سچ سچ بتائیں گی بالکل ایمانداری سے…؟“ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گیا تھا جب کہ نگاہیں پری کے چہرے پر تھیں۔

”ایمان داری سے؟“ دادی نے اس کو گھورا۔

”دیکھ لیں دادی جان… یہ آپ کو بے ایمان سمجھتے ہیں۔“ پری نے بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کی سعی کی۔

”ارے اتنے جوتے لگاؤں گی کہ دماغ درست ہو جائے گا تمہارا طغرل!“ ان کا شاہی غصہ عود کر آیا تھا۔

”اوہ! آئی ایم سوری دادی جان! میں نے کوئی غلط لفظ کہہ دیا ہے؟“ وہ سچ مچ شرمندہ ہو گیا تھا کہ اس کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا۔

”خیر  بولوکیا بول رہے تھے؟ کس بارے میں حلف لے رہے تھے مجھ سے…؟“ اس کا ندامت بھرا انداز دادی کو نرم کر گیا تو وہ گویا ہوئی تھیں۔

”کچھ نہیں  بس میں پوچھ رہا تھا کہ آپ مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہیں یا پری سے؟ آج تو آپ کو یہ بات سچ سچ بتانی ہو گی دادو!“

”پھر وہی بات… تم کیوں بار بار یہ سوال کرتے ہو؟“

”دیکھئے دادی جان! سیاسی جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
“ وہ پھر وہی باتیں کرنے بیٹھ گیا تھا جس سے اس کو چڑ تھی۔ وہ خاموشی سے اٹھی تھی اور لان میں چلی آئی تھی۔ دادی نے اس کو کیا جواب دیا اس سے اس کو اب کوئی دلچسپی نہیں تھی  دادی کس سے کتنا پیار کرتی ہیں اس کا اندازہ اس کو بہت اچھی طرح سے تھا اور یہ بات طغرل کو بھی بخوبی معلوم تھا۔ مگر نامعلوم کون سی تشنگی تھی اس کے اندر جو اکثر اوقات کو بے کل کرتی تھی اور وہ دادی سے پوچھنے پہنچ جاتا کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہیں  نہ جانے وہ محض پری کو تنگ کرنے کا کوئی طریقہ تھا یا اس کی کوئی محرومی؟ اور یہاں آ کر اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ صرف اور صرف اس کو تنگ کرنے کا طریقہ ہے ورنہ اس بندے کو محبتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔
اس کی جھولی ہمیشہ ان خوشیوں سے بھری رہی تھی۔

”ناراض ہو گئی ہو؟“ بہت قریب سے اس کی آواز آئی تھی  تیز خوشبو کا ایک جھونکا تھا جو اردگرد پھیل گیا تھا  اس کو جنون تھا ایسے تیز پرفیومز استعمال کرنے کا جس کی مہک احساسات کو بوجھل کرنے لگتی تھی۔ ”ہوں  تم تو سچ مچ ناراض ہو۔“ اس نے آگے بڑھ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بھاری لہجے میں کہا۔

”طغرل بھائی! میں نے کتنی مرتبہ آپ سے کہا ہے  مجھ سے فاصلے پر رہ کر بات کیا کریں۔“ اس نے ایک جھٹکے سے ان کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹک کر غصے سے کہا۔

”ہم دوست ہیں یار! تم کیوں اتنی معمولی معمولی باتوں پر بھڑکتی ہو… تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے… تم خود کو کانچ کی بنی ہوئی سمجھتی ہو کہ کوئی چھوئے گا اور تم ٹوٹ کر بکھر جاؤ گی؟“ وہ بہت اچھے موڈ میں اس سے معذرت کرنے آیا تھا مگر جس انداز میں پری نے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا اس سے اس کو بہت اہانت محسوس ہوئی۔

”آپ جہاں سے آئے ہیں وہاں ایسی کوئی حد نہیں ہے لیکن یہاں آپ کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیں گی۔“ وہ کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی تب ہی اس نے اس کی کلائی پکڑ لی۔ بہت سختی تھی اس کے انداز میں  درد کی ایک لہر اس کی رگ و پے میں دوڑ گئی تھی۔ اس نے غصے سے اس کی طرف دیکھا مگر اس کی نگاہوں سے شعلے سے لپکتے محسوس ہو رہے تھے اور چہرہ آگ کی مانند تپ رہا تھا۔
پہلی بار اسے اس سے خوف محسوس ہوا تھا اور گھبرا کے وہ بولی۔ ”ہاں… ہاتھ چھوڑیئے طغرل بھائی میرا۔“

”ایک بار نہیں  بار بار تم میری عزت نفس  میرے کردار پر وار کر چکی ہو۔ تمہارا خیال ہے میرا وقت آسٹریلیا میں عیاشیوں میں گزرا ہے؟“ اس نے ہاتھ پکڑے پکڑے ہی اس کو زور سے جھٹکا دے کر کہا تھا اور اس کو جھٹکا دینے سے کسی بے جان گڑیا کی طرح کانپ اٹھی تھی۔
”تم کو کس نے حق دیا ہے کہ کسی کی عزت نفس اور کردار کو محض اپنی خیالی گندگی سے داغ دار کر دو اور اس پر بدکرداری و بدنیتی کا لیبل چسپاں کر دو؟ بولو… کس نے حق دیا ہے تمہیں…؟ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے میری بدکرداری کا…؟“ وہ ہنسنے مسکرانے والا کھلنڈر سا نوجوان جس کی شخصیت میں عجب سی کشش اور جاذبیت تھی  لوگ اس سے مرعوب رہتے تھے  وہ جس کو چاہتا اپنا گرویدہ بنا لینے کا ہنر جانتا تھا مگر اول روز سے پری سے چلنے والی چپقلش میں کمی کی جگہ اضافہ ہوتا ہی جا رہا تھا۔

”میرا ہاتھ چھوڑیں طغرل بھائی! ورنہ میں چیخنے لگوں گی  سمجھے آپ؟“ اس کا جنون حد سے بڑھتا دیکھ کر اس نے دھمکی دی۔

”چیخو! مجھے کوئی پروا نہیں ہے مگر تم میرے سوالوں کے جوابات دیئے بغیر نہیں جا سکتیں  مجھے بھی تو معلوم ہونا چاہئے ناں  جس لڑکی نے بیس سال مجھ سے بات نہیں کی اور نہ ہی کسی سے کچھ پوچھنا گوارا کیا  جو مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو کہ میرا نام بھی سننے کی روا دار نہ ہو تو وہ کس طرح یہ جان سکتی ہے کہ میں نے سات سمندر پار کہاں اور کس طرح زندگی گزاری ہے؟“

”ضروری نہیں ہے کسی کے کردار کو جاننے کیلئے اس کے پیچھے ہمیں سات سمندر پار ہی جانا پڑے۔

“ پری نے اس کی ہٹ دھرمی محسوس کرکے کہنا شروع کیا تھا۔ ”آپ کی بے تکلفی کی کوشش کرنے کا انداز بتا دیتا ہے کہ آپ کس ٹائپ کے انسان ہیں‘ آپ کی نیچر کیا ہے۔“ پری کے انداز میں اتنی کراہت و حقارت تھی کہ اس کے اندر شرارے سے اڑنے لگے تھے۔ دل تو یہی چاہ رہا تھا اس بد دماغ لڑکی کے وجود کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دے  توڑ مروڑ دے مگر…!

اوہ! میں تو بہت گرا ہوا شخص ہوں آپ کی نگاہ میں  جو لڑکیوں سے بے تکلفی کے بہانے ڈھونڈتا ہے  جس میں نہ شرافت ہے اور نہ ہی حمیت اور رشتے کے تقدس کا بھی لحاظ نہیں ہے  ہے ناں! یہی جتانا چاہ رہی ہو ناں تم!“ اس کے انداز میں وحشت تھی  ایسا جنون کہ وہ اقرار میں نہ گردن ہلا سکی نہ کوئی لفظ کہہ سکی تھی۔
اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ رات کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور اس وقت گھر میں کوئی بھی تو موجود نہیں تھا ماسوائے دادی جان کے جو کھانا کھا کر نماز و وظائف کی ادائیگی کے بعد لیٹ چکی تھیں۔ صباحت دونوں بیٹیوں کے ہمراہ اپنی بہن کے ہاں گئی ہوئی تھیں اور پاپا کا کوئی ٹائم نہ تھا گھر آنے کا  وہ عموماً دیر سے آتے تھے اور اس وقت چوکیدار بھی اپنے کیبن میں نہیں تھا۔

”طغرل بھائی! میرا ہاتھ چھوڑیں۔“ اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔

”بہت نیک و پارسا سمجھتی ہو خود کو…؟“ وہ اس کی کہاں سن رہا تھا وہ شاید حواسوں میں ہی نہ تھا۔

”طغر…ل … بھا…ئی!“ اس نے دو قدم آگے بڑھائے تھے۔ اس کے انداز میں ایسی وحشت و درندگی تھی کہ وہ چاہنے کے باوجود چیخ نہ سکی تھی۔

   1
0 Comments